42

اک پیار کا نغمہ ہے،

از کتاب: راگ هزره ، فصل احمد ظاهر ، بخش ،
احمد ظاهر

اک پیار کا نغمہ ہے، موجوں کی روانی ہے
زندگی اور کچھ بھی نہیں، تیری میری کہانی ہے

کچھ پا کر کھونا ہے، کچھ کھو کر پانا ہے
جیون کا مطلب تو، آنا اور جانا ہے
دو پل کے جیون سے، اک عمر چرانی ہے
زندگی اور کچھ بھی نہیں، تیری میری کہانی ہے

تو دھار ہے ندیا کی، میں تیرا کنارا ہوں
تو میرا سہارا ہے، میں تیرا سہارا ہوں
آنکھوں میں سمندر ہے، آشاؤں کا پانی ہے
زندگی اور کچھ بھی نہیں، تیری میری کہانی ہے

طوفان تو آنا ہے، آ کر چلے جانا ہے
بادل ہے یہ کچھ پَل کا، چھا کر ڈھل جانا ہے
پرچھائیاں رہ جاتیں، رہ جاتی نشانی ہے
زندگی اور کچھ بھی نہیں، تیری میری کہانی ہے
زندگی اور کچھ بھی نہیں تیری میری کہانی ہے
تو دھار ہے ندیا کی میں تیرا کنارا ہوں
تو میرا سہارہ ہے میں تیرا سہارہ ہوں
آنکھوں میں سمندر ہے آشائوں کا پانی ہے
زندگی اور کچھ بھی نہیں تیری میری کہانی کے

جو دل کو تسلی دے، وہ ساز اٹھا لاؤ
دم گُھٹنے سے پہلے ہی، آواز اٹھا لاؤ
خوشیوں کا ترنم ہے، اشکوں کی زبانی ہے
زندگی اور کچھ بھی نہیں، تیری میری کہانی ہے
آ آ آ آ آ آ آ آ آ آ
زندگی اور کچھ بھی نہیں تیری میری کہانی ہے
تیری میری کہانی ہے
اک پیار کا نغمہ ہے
موجوں کی روانی ہے زندگی اور کچھ بھی نہیں تیری میری کہانی ہے
میں تیرا کنارا ہوں تو میرا سہارہ ہے
میں تیرا سہارہ ہوں
آنکھوں میں سمندر ہے آشائوں کا پانی ہے
زندگی اور کشھ بھی نہیں تیری میری کہانی ہے
ہچکیاں
کچھ پا کر کھونا ہے کچھ کھو کر پانا ہے جیون کا مطلب تو آنا اور جانا ہے
اس بات کا رونا ہے ہر چیز تو فانی ہے
زندگی اور کچھ بھی نہیں تیری میری کہانی ہے
اک پیار کا نغمہ ہے