42

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے

از کتاب: راگ هزره ، فصل سحر ، بخش ،
سحر

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
کے جیسے تجھ کو بنایا گیا ہے میرے لیے

تو اب سے پہلے ستاروں میاں بس رہی تھی کہیں
تجھے زمین پہ بلایا گیا ہے میرے لیے

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
کے یہ بدن یہ نگاہیں میری امانت ہیں

یہ گیسوئوں کی غنی چھاؤں ہیں میری خاطر
یہ ہونٹ اور یہ بانہیں میری امانت ہیں

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے

کے جیسے بجتی ہے شہنائیاں سے راہوں میں
سہاگ رات ہے گھونگھٹ اٹھا رہا ہوں میں

سمٹ رہی ہے تو شرما کے اپنی بانہوں میں
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے

کے جیسے تو مجھے چاہے گی عمر بھر یوں ہی
کے اٹھے گی میرے طرف پیار کی نظر یوں ہی

میں جانتا ہوں تگ ہر ہے مگر یوں ہی
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے . . . !