میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے
از کتاب: راگ هزره
، فصل ترانه های خارجی با ترجمه دری
، بخش
،
ترانه های خارجی با ترجمه دری
آواز: مهدی حسن
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سر آیینه میرا عکس ہے، پس آیینه کوئی اور ہے
میں کسی کے دست طلب میں ہوں تو کسی کے حرفِ دعا میں ہوں
میں نصیب ہوں کسی اور کا، مجھے مانگتا کوئی اور ہے
عجب اعتبار و بے اعتباری کے درمیان ہے زندگی
میں قریب ہوں کسی اور کے، مجھے جانتا کوئی اور ہے
تجھے دشمنوں کی خبر نه تھی، مجھے دوستوں کا پته نہیں
تیری داستاں کوئی اور تھی، میرا واقعه کوئی اور ہے
وہی منصفوں کی روایتیں، وہی فیصلوں کی عبارتیں
میرا جرم تو کوئی اور تھا، یه میری سزا کوئی اور ہے
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں، دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یه راسته کوئی اور ہے
میری روشنی تیرے خط و خال سے مختلف تو نہیں مگر
تو قریب آ تجھے دیکھ لوں، تو وہی ہے یا کوئی اور ہے
جو میری ریاضت نیم شب کو "سلیم" صبح نه مل سکی
تو پھر اس کے معنی تو یه ہوئے کہ یہاں خدا کوئی اور ہے
من گمان کسی هستم، دیگری مرا می اندیشد
آنسوی آیینه چهره من، اینسوی آیینه کس دیگری دیده میشود
در دست دریوزگی یکی هستم، در متن دعای دیگری هستم
بهره کسی هستم، دیگری مرا میخواهد
شگفتا! زندگی در مرز باور و ناباوری ایستاده است
نزدیک هستم به این یک، ولی آن دیگر مرا [بهتر] میشناسد
تو از دشمنان آگاهی نداشتی، من از دوستان نمیدانم
افسانه تو دیگر است و رویداد من دیگر
اگر برگردند مپرس، به سیماها شان خیره شو
آنهایی که در میانه راه دریافتند: "راه" [درست] دیگر است
گفته های دادگران همان و چگونگی فرمانها همان
گناهم چیز دیگری بود، کیفر دگرگونه مییابم
روشنای تو و آرایه های من ناهمگون نیستند
نزدیکتر بیا! ببینم تو همانی یا آدم دگری است
سلیم! اگر ریاضت شبانه ام به سپیده دم نرسد
گویا چنین خواهد بود: اینجا دیگری خدایی میکند
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سر آیینه میرا عکس ہے، پس آیینه کوئی اور ہے
میں کسی کے دست طلب میں ہوں تو کسی کے حرفِ دعا میں ہوں
میں نصیب ہوں کسی اور کا، مجھے مانگتا کوئی اور ہے
عجب اعتبار و بے اعتباری کے درمیان ہے زندگی
میں قریب ہوں کسی اور کے، مجھے جانتا کوئی اور ہے
تجھے دشمنوں کی خبر نه تھی، مجھے دوستوں کا پته نہیں
تیری داستاں کوئی اور تھی، میرا واقعه کوئی اور ہے
وہی منصفوں کی روایتیں، وہی فیصلوں کی عبارتیں
میرا جرم تو کوئی اور تھا، یه میری سزا کوئی اور ہے
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں، دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یه راسته کوئی اور ہے
میری روشنی تیرے خط و خال سے مختلف تو نہیں مگر
تو قریب آ تجھے دیکھ لوں، تو وہی ہے یا کوئی اور ہے
جو میری ریاضت نیم شب کو "سلیم" صبح نه مل سکی
تو پھر اس کے معنی تو یه ہوئے کہ یہاں خدا کوئی اور ہے
من گمان کسی هستم، دیگری مرا می اندیشد
آنسوی آیینه چهره من، اینسوی آیینه کس دیگری دیده میشود
در دست دریوزگی یکی هستم، در متن دعای دیگری هستم
بهره کسی هستم، دیگری مرا میخواهد
شگفتا! زندگی در مرز باور و ناباوری ایستاده است
نزدیک هستم به این یک، ولی آن دیگر مرا [بهتر] میشناسد
تو از دشمنان آگاهی نداشتی، من از دوستان نمیدانم
افسانه تو دیگر است و رویداد من دیگر
اگر برگردند مپرس، به سیماها شان خیره شو
آنهایی که در میانه راه دریافتند: "راه" [درست] دیگر است
گفته های دادگران همان و چگونگی فرمانها همان
گناهم چیز دیگری بود، کیفر دگرگونه مییابم
روشنای تو و آرایه های من ناهمگون نیستند
نزدیکتر بیا! ببینم تو همانی یا آدم دگری است
سلیم! اگر ریاضت شبانه ام به سپیده دم نرسد
گویا چنین خواهد بود: اینجا دیگری خدایی میکند